Poet: Tanveer Iqbal
آج پھر حشر بپا ہو جائے حالِ دل دشتِ بلا ہو جائے جسدِ تاریک موت طاری ہے روحِ بےنور رفع ہو جائے نہیں لگن کو عقل سے نسبت جگر ذہن سے جدا ہو جائے میری تاریک و تنگ راہِ سفر کسی رہبر کی ضیا ہو جائے زندہ رہنے کی قسم تیرے بعد وہ عہد کیا جو وفا ہو جائے صنم پہ مٹ کے جیوں مٹنے کو یہ طرزِ طور روا ہو جائے غمِ جاناں کےہم نہیں قائل ذات جب تک نہ فنا ہو جائے ہو منور خیالِ یار سے دل تو ہر اندیشہ دفع ہو جائے میں سائل رہا جہاں بھی گیا کسی محسن کی عطا ہو جائے میرا کچھ بھی نہیں رہے میرا تا دم چاہ پہ فدا ہو جائے خوار ہو جائیں مرے روزوشب تُو اگر مجھ سے خفا ہو جائے آج بس جی لے زندگی تنویر کیا خبر کیا فردا ہو جائے تنویر اقبال |
Nice