Poet: Tanveer Iqbal
سر پر آسماں، قدموں تلے زمین نہیں غیر تو غیر تھے، اپنوں پہ اب یقین نہیں نہ اپنا آئینہ بھی شک سے گریزاں رکھنا یہاں سانپوں سے بری کوئی آستین نہیں عشق میں ہجر نے جذبات کو جو رنگ دیے اُن رنگوں میں پر کوئی بھی رنگین نہیں مرا قاتل مجھے مارے، پھر دفنائے بھی وہ کافر تو ہے، بالکل بے دین نہیں کوئی لمحہ نہیں ہے خوش تری بعدِ رخصت کوئی ساعت نہیں ایسی جو غمگین نہیں فوت کب سے دل ہوا، سانسیں جاری ہیں مگر کیا مری بیباکی قابلِ تحسین نہیں جنونِ عشق وہ سکون ہے جس کے بدلے کوئی شراب و نشہ قابلِ تسکین نہیں میں رکھتا ہوں دل میں دولتِ سوز و آزار شکل سے لگتا ہوں پر دل سے مسکین نہیں غمِ جاناں بلا شک باعثِ بربادی ہوں غمِ دوراں تو کبھی اتنے سنگین نہیں یہ دل وہ گھر نہ رہا، در درِ دستک نہ رہا لوٹ جاؤ کہ یہاں اب کوئی مکین نہیں بزم میں آیا تنہائی کی چادر اوڑھے تنویر، کیا یہ محفل کی توہین نہیں تنویر اقبال |