Poet: Tanveer Iqbal
دل سے نکلی ہے صدا، دل میں اتر جائے گی دھڑکنوں سے تری، میری آواز آئے گی حدتِ کرب کی جو لُو چلی میرے دل سے تیری بادِ بہار اُس سے نہ بچ پائے گی میں بچا مرتے مرتے، تو کیا کرے گا جب کوئی جفا تجھے بھی اتنا آزمائے گی مری آنکھوں کے سمندر بہہ گئے خشکی میں کسی کی آہ تجھے اِسطرح رلائے گی مرے دل کی فضا پہ جب چھائے گی پت جھڑ ترے گلشن کی بھی ہر کلی مرجھائے گی آتشِ یاس میں تو بھی جلے گا میری طرح کوئی امید بھی یہ آگ نہ بجھائے گی ضبط کے بند جب توڑے گی طغیانیِ اشک شدتِ الم کی رو تجھ کو بھی بہائے گی نظر میں آئیں گے سب ساتھ گزارے لمحے ہر بیتی ساعت پل پل تڑپائے گی سفر ختم نہ ہو، منزل شائد نہ ملے فکرِ آئندہ ترا دل بھی دہلائے گی تنویر اقبال |