Poet: Tanveer Iqbal
کاہے میری کوئی دعا روا نہیں ہوتی کہ آہِ دل کیوں صدائے بلا نہیں ہوتی لگا رہتا ہوں دوسروں کی راز فاشی میں گو اپنی زات کبھی خود پہ وا نہیں ہوتی ہے ہر عمل کا دار و مدار نیت پر بلا قصد، کوئی بھی خطا نہیں ہوتی بغیر فکرِ غیر و باطل و بسرِ اوقات کوئی نماز بھی مجھ سے ادا نہیں ہوتی سراسر شرک و کفر اور بت پرستی ہے وجہِ رغبت جو خاطرِ خدا نہیں ہوتی کوشش کر احسانوں کے شکر کی، ورنہ فراموشی کبھی اہلِ رضا نہیں ہوتی نہ بےسود ہو راہِ حق میں کوئی قدم کوئی سعی نا قابلِ صلہ نہیں ہوتی جاگ، پہچان اپنے مقصدِ ولادت کو تخلیقِ جُوں تک بھی بے وجہ نہیں ہوتی مبتلا رہتا ہوں نفس کے آزاروں میں کیوں کارآمد کوئی دوا نہیں ہوتی کِبر کس بات کا کرتا ہے پیکرِ ناقص نجِس رہتا جو میسر جِلا نہیں ہوتی رہِ حصول میں مرنا ہے ذندگی پانا بنا فنا کے، ممکن بقا نہیں ہوتی تو کھوجتا ہے محبوب مسجد و کعبہ اُس سے پوشیدہ تو کوئی جا نہیں ہوتی دعوئ چاہ بھی کرتا ہے اور جفائیں بھی سچی لگن کبھی بھی بے وفا نہیں ہوتی آئے دنیا میں نہتا، جائے تو دستِ تہی تھا کالعدم جو خیر و عطا نہیں ہوتی تو شیطان کے پنجوں سے بچ نہیں سکتا جو دستیاب غیب سے پناہ نہیں ہوتی جو سمجھتا ہے خالص عبودیت کا مفہوم اُسے پھر حاجتِ جزا سزا نہیں ہوتی ختم نہیں ہوتا سلسلہِ ہجر و وصال جب تلک ذات یار میں فنا نہیں ہوتی عیب ہے تیری ہی لگن میں، وگرنہ تنویر یار کی بے مروتی بجا نہیں ہوتی تنویر، آس نہ چھوڑ، آئے گی سحرِ انور عمرِ شبِ تاریکی سدا نہیں ہوتی تنویر اقبال |