Poet: Tanveer Iqbal
جان کر بھی لوگ انجان بنے پھرتے ہیں اپنی بربادی کا سامان بنے پھرتے ہیں حبس شائد کسی طوفاں کا پیش خیمہ ہے آج دشمن جو مہربان بنے پھرتے ہیں شرم نہ آئی کبھی ہاتھ پھیلانے میں جنہیں کیا عجب ہے وہ سلطان بنے پھرتے ہیں مسجدوں میں ڈھونگ کرتے ہیں پارسائی کا پھر نکلتے ہی شیطان بنے پھرتے ہیں داڑھیاں رکھتے ہیں سنت میں اِنسِ کامل کی مگر اعمال میں حیوان بنے پھرتے ہیں قتل و غارت سے اڑا کر امن کی دھجیاں قاتل محافظِ ایمان بنے پھرتے ہیں رکھتے ہیں زبان پر غلاضتوں کے ڈھیر قاری و حافظِ قرآن بنے پھرتے ہیں دوسروں پر کفر کی مہر لگا کر پھر وہ آپ سرکاری مسلمان بنے پھرتے ہیں پار کرکے ظلمتوں کی حدیں، دنیا بھر میں بربریت کا وہ نشان بنے پھرتے ہیں رات آئے تو غنیمت، کل بھلے ہو نہ ہو غمِ دم میں یوں پریشان بنے پھرتے ہیں خاک سے خاک کی خاکی کو لوٹنے والے آج ملت کے نگہبان بنے پھرتے ہیں چمن سے کہتے ہیں مرجھاتے ہوئے غنچہ و گل ہیں راہزن جو باغبان بنے پھرتے ہیں بے جا جہاد سے بہا کے خون کے دریا خودکش و وحشی انسان بنے پھرتے ہیں طیش اکسا کر ناموسِ احمد پر پھر ہر کسی کی وبالِ جان بنے پھرتے ہیں حبِ وطنی و اطاعت کے دعوے کر کے وہ باغی و نافرمان بنے پھرتے ہیں عوام کو دھمکاتے ہیں غضبِ خدا سے خود مثلِ قہرِ یزدان بنے پھرتے ہیں تنویرکچھ تو ملا عشق میں اجڑنے پر کہ آج ہم بھی قلمدان بنے پھرتے ہیں تنویر اقبال |