Poet: Tanveer Iqbal
الجھے سلجھے سےجذبوں میں پھنسا رہتا ہوں
حسرت و آس کے قبضوں میں پھنسا رہتا ہوں
رہتا ہوں گرفتِ گردشِ جنون و عشق
میں وحشتوں کے پنجوں میں پھنسا رہتا ہوں
نہیں فرصت غمِ دنیا کی ایک پل مجھکو
ہجر میں یار کی ذلفوں میں پھنسا رہتا ہوں
آج گزرے نہیں گزرے، کل بھلے ہو نہ ہو
میں گزرے بیتے لمحوں میں پھنسا رہتا ہوں
خاک ہو کر کبھی پاتا ہوں خود کو آزاد
کبھی شیشے کے محلوں میں پھنسا رہتا ہوں
کسطرح پا سکوں راہ کے کانٹوں سے نجات
میں اپنے پاؤں کے چھالوں میں پھنسا رہتا ہوں
کر چکتا ہے بات مدِ مقابل مجھ سے
اور میں اپنے خیالوں میں پھنسا رہتا ہوں
اب کہاں وقت میرے پاس بے پرواہی کا
کہ روزگار کے پھیروں میں پھنسا رہتا ہوں
تلبیہ پڑھتا کعبے کا کرتا ہوں طواف
کبھی خود ساختہ بتوں میں پھنسا رہتا ہوں
آخر انسان ہوں جتنی بھی کروں جِہدِ فرار
اپنی تقدیر کے گھیروں میں پھنسا رہتا ہوں
تنویر اقبال