Poet: Tanveer Iqbal tanveer.Iqbal@outlook.com
فضا میں اٹھتا گردوغبار کیسا ہے
مری آنکھوں میں اشکوں کا بار کیسا ہے
ہر آہٹ پہ دل زور سے دھڑکتا ہے
یادوں کی دستکوں کا شمار کیسا ہے
واضح ہوتے جاتے ہیں دھندلائے چہرے
مری نظروں میں رخِ گل و خار کیسا ہے
مرا آتش فشاں بجھا پڑا تھا مدت سے
دل پھاڑنے کا طیش پھر سوار کیسا ہے
جسے چاہا تھا جان و حیات سے بڑھ کر
اُسی کے خنجر کا دل پہ وار کیسا ہے
بھر جانے کو ہی تھے تمام زخمِ دل
اب یہ نیا نشتر آرپار کیساہے
فضاءِ دل میں نمی برقرار تھی، پھر یہ
نیا موسم میں رنجِ سوگوار کیسا ہے
بھلا چکا تھا دفنا کے سبھی آرزوئیں
حسرتوں کا دوبارہ ابھار کیسا ہے
خوشی ہوتی ہے غم کو گلے لگانے میں
مرے دکھ بھی اب کہیں یہ شکار کیسا ہے
ٹوٹ کر پھر ہوا لہو لہو پیمانہِ دل
بیتی جفاؤں کا یہ سنگسار کیسا ہے
مرے جنون کی حدوں کا دائرہ تھا وہ
وجود پہ تنگ ہوتا حصار کیسا ہے
مار کر زندہ درگور کر گیا جو مجھے
پھر اُسی قاتل کا انتظار کیسا ہے
ذہن اکسائے سارے بدلے چکائے جائیں
مگر دل میں درگزر کا یہ عار کیسا ہے
دھڑکنوں پر ہوتی جاتی ہے بیکسی طاری
اب تک سانسوں پہ مرا اختیار کیسا ہے
تنویر اقبال